Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 91
- SegmentHeader
- AyatText
- {186} هذا جواب سؤال. سأل النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - بعضُ أصحابه فقالوا: يا رسول الله، أقريب ربنا فنناجيه، أم بعيد فنناديه؟ فنزل {وإذا سألك عبادي عني فإني قريب}؛ لأنه تعالى الرقيب الشهيد المطلع على السر وأخفى يعلم خائنةَ الأعين وما تخفي الصدور فهو قريب أيضاً من داعيه بالإجابة، ولهذا قال: {أجيب دعوة الداع إذا دعان}؛ والدعاء نوعان: دعاء عبادة، ودعاء مسألة. والقرب نوعان: قرب بعلمه من كل خلقه، وقرب من عابديه وداعيه بالإجابة والمعونة والتوفيق. فمن دعا ربه بقلب حاضر ودعاء مشروع ولم يمنع مانع من إجابة الدعاء كأكل الحرام ونحوه فإن الله قد وعده بالإجابة، وخصوصاً إذا أتى بأسباب إجابة الدعاء وهي الاستجابة لله تعالى بالانقياد لأوامره ونواهيه القولية والفعلية والإيمان به الموجب للاستجابة، فلهذا قال: {فليستجيبوا لي وليؤمنوا بي لعلهم يرشدون}؛ أي: يحصل لهم الرشد الذي هو الهداية للإيمان والأعمال الصالحة ويزول عنهم الغي المنافي للإيمان والأعمال الصالحة، ولأن الإيمان بالله والاستجابة لأمره سبب لحصول العلم كما قال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إن تتقوا الله يجعل لكم فرقاناً}. ثم قال تعالى:
- AyatMeaning
- [186] رسول اللہeسے بعض صحابہ کرامyنے عرض کیا ’’کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کے انداز میں مناجات کریں یا وہ دور ہے کہ ہم اسے پکاریں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ﴿ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَ٘رِیْبٌ ﴾ ’’اور جب تجھ سے میرے بندے میری بابت پوچھیں تو (ان کو بتلا دیں کہ) میں قریب ہوں‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی نگہبانی کرنے والا اور اسے دیکھنے والا ہے وہ ہر بھید اور ہر چھپی ہوئی چیز کی اطلاع رکھتا ہے۔ وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں مدفون رازوں کو جانتا ہے۔ وہ دعا قبول کرنے کے اعتبار سے بھی پکارنے والے کے قریب ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ﴾ ’’جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔‘‘ دعا کی دو اقسام ہیں: (۱) دعائے عبادت۔ (۲) دعائے سوال۔ اسی طرح قرب کی بھی دو قسمیں ہیں: (۱) اپنے علم کے اعتبار سے اپنی تمام مخلوق کے قریب ہونا۔ (۲) دعا کی قبولیت، مدد اور توفیق کے ساتھ اپنے عبادت گزار بندوں اور پکارنے والے کے قریب ہونا۔ جو کوئی حضور قلب کے ساتھ اپنے رب سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جو مشروع ہو اور قبولیت دعا میں کوئی مانع بھی نہ ہو، مثلاً حرام کھانا وغیرہ، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خاص طورپر جب بندہ ایسے اسباب اختیار کرتا ہے جو اجابت دعا کے موجب ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے قولی اور فعلی اوامر و نواہی کے سامنے سرافگندہ ہونا اور اس پر ایمان لانا، جو قبولیت دعا کا موجب ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ ﴾ ’’پس ان کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پا لیں‘‘ یعنی ان کو وہ رشد عطا ہو گی جو ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے کا نام ہے اور ان سے وہ گمراہی زائل ہوجائے گی جو ایمان اور اعمال صالحہ کے منافی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا حصول علم کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّـكُمْ فُ٘رْقَانًا ﴾ (الانفال : 8؍29) ’’اے ایمان دارو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمھارے لیے حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [186
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF