Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
79
SuraName
تفسیر سورۂ نازعات
SegmentID
1690
SegmentHeader
AyatText
{15 ـ 25} يقول الله تعالى لنبيِّه محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -: {هل أتاك حديثُ موسى}: وهذا الاستفهام عن أمرٍ عظيمٍ متحقِّق وقوعه؛ أي: هل أتاك حديثه. {إذ ناداه ربُّه بالوادِ المقدَّس طوىً}: وهو المحلُّ الذي كلَّمه الله فيه، وامتنَّ عليه بالرسالة، وابتعثه بالوحي، واجتباه ، فقال له: {اذهبْ إلى فرعونَ إنَّه طغى}؛ أي: فانهه عن طغيانه وشركه وعصيانه بقولٍ ليِّنٍ وخطابٍ لطيفٍ لعله يتذكر أو يخشى، {فَقُل له هل لك إلى أن تَزكَّى}؛ أي: هل لك في خصلةٍ حميدةٍ ومحمدةٍ جميلةٍ يتنافس فيها أولو الألباب؟ وهي أن تزكِّيَ نفسك وتطهِّرَها من دَنَس الكفر والطغيان إلى الإيمان والعمل الصالح. {وأهدِيَك إلى ربِّك}؛ أي: أدلُّك عليه، وأبيِّن لك مواقع رضاه من مواقع سخطه، {فتخشى}: الله إذا علمت الصراط المستقيم. فامتنع فرعون ممَّا دعاه إليه موسى، {فأراه الآيةَ الكبرى}؛ أي: جنس الآية الكبرى؛ فلا ينافي تعدُّدها، {فألقى عصاه فإذا هي ثعبانٌ مبينٌ. ونزعَ يدَه فإذا هي بيضاءُ للنَّاظرين}. {فكذَّب}: بالحقِّ، {وعصى}: الأمر، {ثم أدبر يسعى}؛ أي: يجتهد في مبارزة الحقِّ ومحاربته. {فحشر}: جنودَه؛ أي: جمعهم، {فنادى. فقال}: لهم: {أنا ربُّكم الأعلى}: فأذعنوا له وأقرُّوا بباطله حين استخفَّهم. {فأخذه اللهُ نَكالَ الآخرةِ والأولى}؛ أي: جعل الله عقوبته دليلاً وزاجراً ومبيِّنةً لعقوبة الدُّنيا والآخرة.
AyatMeaning
[25-15] اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفیٰe سے فرماتا ہے: ﴿ هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰؔى﴾ یہ ایک عظیم معاملے کے بارے میں استفہام ہے جس کا وقوع متحقق ہے ، یعنی کیا آپ کے پاس حضرت موسیٰ uکا قصہ پہنچا ہے؟ ﴿ اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾ ’’جب ان کے رب نے انھیں پاک میدان طوی میں پکارا۔‘‘ یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ uسے کلام کیا، انھیں رسالت سے سرفراز فرمایا، انھیں وحی کے ساتھ مبعوث کیا اور انھیں اپنے لیے چن لیا۔ ﴿ اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى﴾ ’’فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہورہا ہے۔‘‘ اسے نہایت نرم بات اور پرلطف خطاب کے ذریعے سے اس کی سرکشی، شرک اور نافرمانی سے روکو شاید کہ وہ ﴿ یَتَذَكَّـرُ اَوْ یَخْشٰى ﴾(طہ: 44/20)’’نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔‘‘ ﴿ فَقُلْ﴾ اس سے کہہ دیجیے: ﴿ هَلْ لَّكَ اِلٰۤى اَنْ تَزَؔكّٰى ﴾ کیا تو کوئی خصلت حمیدہ اور اچھی تعریف چاہتا ہے، جس میں خرد مند لوگ ایک دوسرے سے مقابلے کی رغبت رکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ تو اپنے نفس کو پاک کرے اور کفر و طغیان سے اپنی تطہیر کر کے ایمان اور عمل صالح کی طرف آئے؟ ﴿ وَاَهْدِیَكَ اِلٰى رَبِّكَ ﴾ یعنی میں اس کی طرف تیری راہنمائی کروں اور اس کی ناراضی کے مواقع میں سے اس کی رضا کے مواقع واضح کروں ﴿ فَتَخْشٰى﴾ پس جب تجھے صراط مستقیم معلوم ہو جائے، تو اللہ سے ڈر جائے۔ جس چیز کی طرف حضرت موسیٰu نے فرعون کو دعوت دی تھی فرعون نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ﴿ فَاَرٰىهُ الْاٰیَةَ الْكُبْرٰى ﴾ ’’پس اس نے اس کو بڑی نشانی دکھائی۔‘‘ یعنی بڑی نشانی کی جنس اور یہ ان نشانیوں کے تعدد کے منافی نہیں ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ فَاَلْ٘قٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ۰۰ وَّنَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰ٘ظِرِیْنَ﴾ (الاعراف:7؍107۔108) ’’موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ یکایک صاف ایک اژدھا بن گیا اور اپنا ہاتھ باہر نکالا تو وہ سب دیکھنے والوں کے لیے روشن چمکتا ہوا ہو گیا۔‘‘ ﴿ فَكَذَّبَ ﴾ پس اس نے حق کو جھٹلایا ﴿ وَعَصٰؔى﴾ اور حکم کی نافرمانی کی ﴿ ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰى ﴾’’ پھر لوٹ گیا اور تدبیریں کرنے لگا۔‘‘ یعنی حق کا مقابلہ اور اس کے خلاف جنگ میں جدوجہد کرتا ہے ﴿ فَحَشَرَ ﴾ پس اس نے اپنے لشکروں کو جمع کیا ﴿ فَنَادٰى ٞۖ۰۰ فَقَالَ ﴾ اور پکارا اور ان سے کہا ﴿ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ﴾ ’’میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں۔‘‘ پس جب اس نے ان کو ہلکا پایا تو انھوں نے اس کے سامنے سر اطاعت خم کر دیا اور اس کے باطل کا اقرار کر لیا۔﴿فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى ﴾ ’’پس اللہ نے اس کو دنیا وآخرت کے عذاب میں پکڑلیا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کو دنیا اور آخرت کے عذاب کے لیے دلیل، تنبیہ اور اس کو بیان کرنے والی بنایا۔
Vocabulary
AyatSummary
[25-
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List